کالم

محبت کی قیمت

میسرہ نے اپنے ابو کے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے ایک گہری سانس لی۔ اس کا دل بوجھل تھا، لیکن ابو کے الفاظ نے اسے تھوڑی سی تسلی دی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی بیٹی کو کس طرح کی زندگی درکار ہے، اور وہ اسے حمزہ کے ساتھ واپس بھیج رہے تھے، لیکن اس بار امید کے ساتھ کہ شاید کچھ بہتری آئے۔ میسرہ نے سوچا، "شاید اب حمزہ سمجھ جائے گا کہ میں صرف ایک بیوی نہیں ہوں، بلکہ ایک انسان ہوں، جس کے جذبات، خواہشات اور خواب ہیں۔”

گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میسرہ نے حمزہ کی طرف دیکھا، جو خاموشی سے اسٹیئرنگ وہیل تھامے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہی بے حسی تھی جو شادی کے بعد سے اس کے رویے کا حصہ بن چکی تھی۔ میسرہ نے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ شہر کی روشنیاں اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں، لیکن اس کے دل میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

گاڑی چلتی رہی، اور دونوں کے درمیان خاموشی کا فاصلہ بڑھتا گیا۔ میسرہ نے سوچا کہ کیا یہی وہ زندگی ہے جس کی اس نے خواب دیکھے تھے؟ کیا یہی وہ نیک مرد تھا جس کی اسے تلاش تھی؟ اس کے ذہن میں بہن کی بات گونجنے لگی، "سوئیٹ ہارٹ، یہ جو نیک دکھتے ہیں نا، یہ ہی سب سے زیادہ فیک نکلتے ہیں۔” کیا واقعی وہ ایک فریب کا شکار ہو گئی تھی؟

گھر پہنچتے ہی حمزہ نے گاڑی روکی اور بغیر کچھ کہے باہر نکل گیا۔ میسرہ نے دیر تک گاڑی میں بیٹھے رہنے کا سوچا، لیکن پھر ہمت کر کے باہر نکلی۔ گھر کے اندر کا ماحول ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ ساس کی تیز نگاہیں، اور حمزہ کی بے حسی۔ میسرہ نے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔ اسے لگا جیسے وہ ایک قید خانے میں واپس آ گئی ہو۔

رات گئے تک میسرہ سو نہیں پائی۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے رہے۔ کیا وہ اپنی زندگی کو بدل سکتی ہے؟ کیا وہ حمزہ کو سمجھا سکتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کر رہا ہے؟ یا پھر اسے اپنے فیصلے پر قائم رہنا چاہیے اور اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہیے؟

صبح ہوئی تو میسرہ نے فیصلہ کیا کہ وہ حمزہ سے بات کرے گی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ آسان نہیں ہوگا، لیکن اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ ناشتے کے وقت میسرہ نے حمزہ کے سامنے بیٹھ کر کہا، "حمزہ، مجھے تم سے بات کرنی ہے۔”

حمزہ نے اپنی چائے کا کپ رکھا اور میسرہ کی طرف دیکھا۔ "کیا بات ہے؟” اس کی آواز میں وہی بے حسی تھی۔

میسرہ نے گہری سانس لی اور کہا، "تمہیں پتہ ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ شادی کیوں کی تھی۔ میں نے ایک نیک مرد چاہا تھا، ایک ایسا شخص جو مجھے سمجھے، میری قدر کرے۔ لیکن تمہارے رویے نے مجھے تکلیف دی ہے۔ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں، لیکن صرف اس صورت میں جب تم میری بات سمجھو اور میرے ساتھ اچھا سلوک کرو۔”

حمزہ نے میسرہ کی بات سنی، لیکن اس کے چہرے پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ وہ خاموشی سے اٹھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ میسرہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اسے لگا جیسے اس کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

لیکن اگلے کچھ دنوں میں میسرہ نے محسوس کیا کہ حمزہ کا رویہ تھوڑا سا بدل رہا ہے۔ وہ اب میسرہ کی باتوں پر توجہ دینے لگا تھا، اور کبھی کبھار اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتا تھا۔ میسرہ نے سوچا کہ شاید ابو کی باتوں کا اثر ہو رہا ہے، یا پھر حمزہ خود بھی کچھ سوچ رہا ہے۔

ایک دن میسرہ نے حمزہ سے کہا، "تمہیں یاد ہے جب ہم پہلی بار ملے تھے؟ تم نے مجھے اپنی زندگی کا حصہ بننے کے لیے کہا تھا۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ میں تمہاری زندگی میں صرف ایک اضافی چیز ہوں۔”

حمزہ نے میسرہ کی طرف دیکھا اور کہا، "میں تمہاری بات سمجھتا ہوں۔ مجھے معافی چاہیے اگر میں نے تمہیں تکلیف دی ہے۔ میں تمہارے ساتھ بہتر رویہ اپناؤں گا۔”

میسرہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "یہی تو میں چاہتی ہوں۔ ہم دونوں مل کر اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔”

اس دن کے بعد سے میسرہ اور حمزہ کے درمیان تعلقات میں بتدریج بہتری آنا شروع ہو گئی۔ میسرہ نے محسوس کیا کہ وہ اب اپنی زندگی میں خوشی اور سکون تلاش کر سکتی ہے۔ اور حمزہ نے بھی یہ سیکھ لیا کہ ایک اچھا شوہر بننے کے لیے صرف نیک ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ اپنی بیوی کے جذبات کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنا بھی ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button