بین الاقوامی

وکرینی صدر کے ساتھ برا رویہ، امریکا کے نائب صدر کو عوامی ردعمل کا سامنا

وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ  ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کی جانب سے یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ برے رویے پر امریکی عوام سراپا احتجاج ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جے ڈی وینس اسکینگ کرنے ورمونٹ پہنچے تو مظاہرین وہاں بھی پہنچ گئے اور انہوں نے نعرے لگائے کہ وینس جاؤ، روس جا کر اسکینگ کرو۔مظاہروں کے بعد جے ڈی وینس نے اہل خانہ کے ہمراہ چھٹیاں منانے کے لیے کسی اور نامعلوم مقام کا رخ کر لیا۔ دوسری جانب مظاہرین نے  نیویارک، لاس اینجلس اور بوسٹن میں ٹیسلا کمپنی کی دکانوں پر ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک کے خلاف بھی مظاہرے کیے۔

جے ڈی وینس کی جانب سے جمعہ کے روز اوول آفس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کو دوٹوک جواب دینا اس بات کا مظہر تھا کہ امریکی نائب صدر کسی جھجک کے بغیر مرکزی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ وہ اپنے پیشروؤں کی طرح محض ایک خاموش سیاسی معاون بننے کے بجائے بھرپور انداز میں جارحانہ مؤقف اختیار کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
یہ وینس ہی تھے جنھوں نے زیلنسکی پر سب سے پہلے سخت تنقید کا آغاز کیا اور پھر صدر ٹرمپ اس میں شامل ہوئے۔یہ ملاقات اس وقت تک خوشگوار چل رہی تھی جب تک کہ وینس نے روس یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی حل تلاش کرنے پر ٹرمپ کی تعریف کرنا نہیں شروع کی۔زیلنسکی، جو واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان براہ راست مذاکرات کے سخت ناقد رہے ہیں، وینس کی بات کاٹتے ہوئے بولے: ’آپ کس قسم کی سفارت کاری کی بات کر رہے ہیں، جے ڈی؟ آپ کا مطلب کیا ہے؟
وینس نے فوری جواب دیا ’میں اس سفارت کاری کی بات کر رہا ہوں جو آپ کے ملک کی تباہی کو ختم کر سکے۔‘
ان کے سخت لہجے نے یوکرینی صدر کو حیران کر دیا۔
’جنابِ صدر پورے احترام کے ساتھ، میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ آپ اوول آفس میں آ کر اس معاملے کو امریکی میڈیا کے سامنے اچھالیں۔
وینس نے زیلنسکی پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انھوں نے 2024 کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی بالواسطہ حمایت کی۔ اس الزام کی بنیاد زیلنسکی کا گذشتہ ستمبر میں سوئنگ سٹیٹس میں سے ایک (فیصلہ کن ریاستیں) پینسلوینیا میں ایک اسلحہ بنانے والی فیکٹری کا دورہ اور وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی حریف کملا ہیرس، سے ملاقات تھی۔
وینس کی جانب سے زیلنسکی کو اس طرح جھاڑ پلانے پر ریپبلکن رہنماؤں کی طرف سے زبردست حمایت دیکھنے میں آئی ہے۔
جنوبی کیرولائنا کے سینیٹر لنڈسے گراہم، جو یوکرین کے حمایتی اور سخت گیر خارجہ پالیسی کے حامی سمجھے جاتے ہیں، نے کہا ’مجھے جے ڈی وینس پر فخر ہے کہ وہ ہمارے ملک کے مفاد کے لیے کھڑے ہوئے۔انھوں نے مزید کہا کہ زیلنسکی کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
الاباما کے سینیٹر ٹومی ٹیوبرول نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ زیلنسکی ’یوکرینی لومڑی‘ ہیں۔
ادھر نیویارک کے کانگریس مین مائیک لاولر نے نسبتاً محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات ’امریکہ اور یوکرین دونوں کے لیے ایک ایسا موقع تھی جسے انھوں نے کھو دیا ہے۔امریکی نائب صدر کے لیے ان کے ملک کے دورے پر آئے ہوئے سربراہ مملکت پر یہ حملہ معمول کی بات نہیں ہے۔عام طور پر ان کا کام صدر کے انتخاب میں مدد دینا اور پھر خاموشی سے اپنے باس کے ساتھ کھڑے رہنا ہوتا ہے۔ وہ وفادار معاون کے طور پر بیرونی دوروں کے دوران صدر کی نمائندگی کرتے ہیں۔۔۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نائب صدر صدارت سے بس ایک قدم دور ہوتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے نائب صدر، نرم مزاج مائیک پینس کے برعکس وینس کا انداز بالکل مختلف ہے۔لیکن وینس، جنھیں وسیع پیمانے پر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نظریات کو واضح کرنے والا شخص سمجھا جاتا ہے، طویل عرصے سے یوکرین کے لیے امریکی امداد کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔جب وہ 2022 میں اوہائیو سینیٹ کی نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے تھے تو ایک پوڈکاسٹ میں انھوں نے صاف کہا: ’مجھے آپ سے سچ بولنا ہے، یوکرین میں کیا ہوتا ہے مجھے اس کی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button