خواتین کے عالمی دن پر ایڈوکیٹ مہوش شاہد ملک کی آواز

ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن نہ صرف خواتین کی کامیابیوں اور حصولیحات کا جشن مناتا ہے بلکہ اس ساتھ ساتھ ان کے حقوق اور ان کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی بھی کرتا ہے پاکستان میں، جہاں معاشرتی، ثقافتی اور اقتصادی چیلنجز کے پیش نظر خواتین کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایڈوکیٹ مہوش شاہد ملک جیسے خواتین وکلا کی آواز بہت اہمیت رکھتی ہے۔
ایڈوکیٹ مہوش شاہد ملک، ایک معروف خاتون وکیل ہونے کے ناطے، خواتین کے حقوق کے لیے ایک مضبوط آواز ہیں انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں ہمیشہ خواتین کی مشکلات کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ ان کی آواز میں ایک درد ہے، جو ہر اس خاتون کی کہانی کو بیان کرتی ہے جو عدم مساوات، تشدد، اور سماجی ناکامیوں کا شکار ہوچکی ہے۔
خواتین کی مشکلات
پاکستان میں خواتین کو کئی مشکلات کا سامنا ہے جو ان کی روزمرہ کی زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ ایڈوکیٹ مہوش شاہد ملک نے اپنی گفتگو میں کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی جن میں شامل ہیں
تعلیمی عدم مساوات: پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا حق ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ معاشرتی روایات کی بنا پر بہت سی لڑکیاں سکول جانے سے محروم رہتی ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں تعلیمی سہولیات کی کمی اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے سخت پابندیاں ہیں۔ یہ صورتحال خواتین کو اپنے حقوق کے حصول میں رکاؤٹ بن جاتی ہے۔
معاشی خود مختاری: خواتین کی معاشی خودمختاری بھی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ عدم مساوات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے جب بات کاروبار یا ملازمت کے مواقع کی ہوتی ہے۔ ایڈوکیٹ مہوش نے اس بات پر زور دیا کہ اگر خواتین کو ان کے حقوق کا درست علم ہو اور انہیں ان کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو معاشرتی تبدیلی میں نمایاں بہتری آسکتی ہے۔
تشدد اور ہراسگی: مہوش ملک کی باتوں میں ایک اہم نکتہ تشدد اور ہراسگی کی ایک وبا ہے جو کئی خواتین کا مقدر بن جاتی ہے۔ گھریلو تشدد، زنا بالجبر، اور عوامی مقامات پر ہراسگی نے خواتین کی زندگی میں خوف کا عنصر شامل کیا ہے۔ قانون کے مطابق خواتین کو تحفظ مہیا کیا جانا چاہیے، لیکن عملی طور پر یہ قوانین اکثر کمزور ثابت ہوتے ہیں۔
قانونی حقوق کا علم: خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہی دینا بہت اہم ہے، کیونکہ بیشتر خواتین اپنے حقوق کے بارے میں بلکل لا علم ہوتی ہیں۔ ایڈوکیٹ مہوش نے کہا کہ ہمیں ایسی ورکشاپس اور سیمنارز کا انعقاد کرنا ہوگا جہاں خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ سکیں۔
سماجی دباؤ: معاشرتی توقعات اور دباؤ بھی خواتین کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہیں۔ عورت کا کردار اکثر روایتی مالیاتی و معاشرتی حالات میں مقرر ہوتا ہے جس سے ان کی ترقی کا راستہ مسدود ہوتا ہے۔ ایڈوکیٹ مہوش نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ ہمیں اس دھارے کو توڑنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔
ایڈوکیٹ مہوش کا پیغام
ایڈوکیٹ مہوش شاہد ملک کا پیغام واضح ہے: "خواتین کا حق ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں اور ہم سب کو مل کر ان کے حقوق کی حمایت کرنی چاہیے۔” ان کا یقین ہے کہ شعور اجاگر کرنے سے خواتین کو ان کی مشکلات کا سامنا کرنے کی طاقت ملے گی۔
وہ اداروں اور حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ خواتین کے حقوق کے قانون کو مزید مضبوط کیا جائے اور انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ ان کا ماننا ہے کہ قانون کی طاقت خواتین کو خود مختار بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
خواتین کی کامیابیاں
خاتون وکیل ایڈوكيٹ مہوش نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہمیں خواتین کی کامیابیوں کا جشن منانا چاہیے۔ چاہے وہ کسی بھی شعبے میں ہوں، خواتین نے ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ تعلیم، صحت، سیاست اور کاروبار میں شاندار کامیابیاں حاصل کرنے والی خواتین کی کہانیاں ہمیں امید دیتی ہیں کہ خواتین کی طاقت سے دنیا میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
خواتین کے عالمی دن کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم خواتین کے حقوق کا دفاع کریں گے اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ ایڈوكيٹ مہوش شاہد ملک کی مثال ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ ہر عورت کی کہانی اہم ہے، اور ہمیں مل کر ان کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
8 مارچ صرف ایک دن نہیں بلکہ ایک تحریک ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم سب کو مل کر ایک ایسی دنیا کی تشکیل کرنی ہے جہاں ہر خاتون کو اپنے حقوق کا علم ہو، وہ محفوظ ہو، اور اپنے مواقع کے استعمال میں آزاد ہو۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس سفر میں شریک ہوں، خواتین کی آواز بنیں اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں۔