کالم

کھربوں روپیوں کے قرضے ،ناقص معاشی پالیسیاں

پاکستان میں جتنی جمہوری حکومتیں ائیں اب تک قرضوں پر گزارا کر رہی ہیں دنیا بدل رہی ہے اور وہ ترقی پذیر ممالک جو اپنے اپ کو چیمپین سمجھتے ہیں وہ بھی اپنے قرضوں کی واپسی کے لیے فکر مند ہیں اور امریکہ جیسا سپر پاور بھی منصوبے بنانے لگا ہے کہ کس طرح سے ملک کی ترقی ممکن ہو قرضوں میں کمی ائے اور عوام خوشحال ہوں اس کے برعکس 25 کروڑ پاکستانیوں کا ملک بنا مستقل پالیسیوں کے ائی ایم ایف کے پیچھے کھڑا ہو کر قرض پہ قرض لیتے ہوئے ان کی تشہیر اور فوٹو سیشن کرا کے قوم کی توجہ کسی اور طرف لے جا رہا ہے حکمرانوں کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کھربوں روپے لیے گئے قرض واپس نہیں کرنے وہ روکھی سوکھی کھا کر قرض واپسی کا کبھی بھی نہیں سوچتے اور نہ ہی انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ اس غریب قوم کو کیوں کر قرضوں کے بوجھ تلے ڈبویا جا رہا ہے اخر اس قوم کا کیا قصور ہے جو حکمران 50 سالوں سے مسلسل حکمرانی کر رہے ہیں ان کے منہ سے کبھی یہ نہیں سونا گیا کہ قرضوں کی اقساط واپس بھی کریں گے بلکہ وہ تو ائی ایم ایف سے مزید قرض کے لیے کچھ اس طرح سے گڑگڑا رہے ہیں کہ ائی ایم ایم ایف کا ایک وفد اسلام آباد میں فنڈ کے جاری 7 بلین ڈالر کے فنڈنگ پروگرام پر پیشرفت کا جائزہ لینے کے اے اے کے درمیان امید ہے کہ سرمایہ کاروں کی بے چینی کے باوجود امید ہے کہ اس جائزے میں کسی بھی سنگین رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ائی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کا امکان ہے کہ کرنا اگلی قسط میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ حکام کا اصرار ہے کہ موجودہ مالی سال کی دوسری ششماہی کے لیے بغیر کسی سخت شرائط کے انہوں نے تمام بنیادوں کا احاطہ کر لیا ہے، حالانکہ ٹیکس کے ہدف کو پورا کرنے میں ناکامی پریشانی کا ایک ذریعہ بنے گی، اس کے باوجود حکام کو یقین ہے کہ آئی ایم ایف ٹیکس ہدف میں کمی کو نظر انداز کر دے گا کیونکہ ہدفِ سے زیادہ پرائمری بجٹ سرپلس اور تخمینہ سے زیادہ آمدنی ہے جی ڈی پی تناسب ایف بی آر اس کمی کی بڑی وجہ درآمدات سے ٹیکس وصولی میں کمی ایس ایم کی سست شرح نمو اور مہنگائی میں غیر متوقع کمی کو قرار دیتا ہے ٹیکس شارٹ فال پر ائی ایم ایف کا رد عمل دیکھنا باقی ہے تا ہم سٹاک مارکیٹ کی گراوٹ سرمایہ کاروں کی تشویش کو دھوکہ دیتی ہے جو کہ متوقع ہنگامی اقدامات کے تحت فنڈ کے اصل ٹیکس ہدف کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے سرمایہ کاروں کی بے چینی کے باوجود ائی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کا امکان ہے کہ موجودہ مالی سال کی دوسری ششماہی کے لیے بغیر کسی سخت نئی شرائط کے یا قرض دہندہ کی جانب سے ٹیکس میں چھوٹ کے لیے تعزیری مطالبات کے بغیر آسانی سے پیش رفت ہوگی ان کا کہنا ہے کہ جاری جائزہ اس بات کا تعین کرنے میں اہم ہوگا کہ معیشت کس طرح آگے بڑھی ہے اس کی کامیابی پر معاشی استحکام کی مضبوطی دیگر کثیر جہتی ایجنسیوں سے سرکاری بہاؤ اور خود مختار کریڈٹ ریٹنگ کی اپ گریڈیشن کا انحصار ہے جو کہ اسلام اباد کے بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ سے فنڈز اکٹھا کرنے کے منصوبوں کے لیے اہم ہے موجودہ ائی ایم ایف بیل اؤٹ ماضی کو دہرانے سے بچنے کا اخری موقع ہو سکتا ہے اخر کس طرح سے حکومتی امور چلانے کے لیے کب تک ان قرضوں کا سہارا لینا ہوگا اور ان کی واپسی کیسے ہوگی جبکہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہی معاشی عدم استحکام کا غلبہ ہے اور کوئی کاروبار ایسا نہیں ہے جو ترقی پا رہا ہو یہ عارضی بندوبست کے عوام کو پانچ ہزار اور 10 ہزار کی امداد دے کر اور وہ بھی 40 ہزار ہزار سے ب ہزار گھرانوں تک دیتے ہوئے 25 کروڑ ابادی کو نہ تو روزگار کے مواقع دے سکے ہیں اور نہ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کوئی مضبوط پالیسیاں فوٹو سیشن اخبارات میں اشتہارات اور اربوں روپے اپنی من مرضی کے پروگرامز کر کے ضائع کرنے سے کبھی بھی ترقی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان پالیسیوں سے پاکستانی عوام اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکے گی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button