پاکستان

کراچی کے انٹر سال اول کے نتائج پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار، حکومت خاموش

کراچی: سندھ حکومت نے کراچی کے انٹر سال اول کے ہزاروں طلبہ کے کم امتحانی نتائج کے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ تو وصول کر لی، لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ طلبہ اور والدین کی بے چینی میں اضافہ ہو گیا۔

تفصیلات کے مطابق، کراچی کے انٹر سال اول کے پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے نتائج میں غیر معمولی کمی کے بعد طلبہ کے احتجاج اور اسمبلی میں معاملہ اٹھائے جانے پر جنوری میں وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ بعد ازاں، این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے 12 فروری کو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی، مگر اب تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کراچی سمیت سندھ کے دیگر تعلیمی بورڈز کے نتائج، داخلہ پالیسی، نصاب اور امتحانی عمل میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں شامل ہیں:بورڈز کے نتائج میں غیرمعمولی فرق: کراچی میں پری میڈیکل کے نتائج کی شرح 36 فیصد اور پری انجینئرنگ کے 29 فیصد رہی، جبکہ سندھ کے دیگر بورڈز میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے، حالانکہ نصاب، اسکیم آف اسٹڈیز اور امتحانی پیٹرن ایک جیسے ہیں۔
داخلہ پالیسی میں تبدیلی: 2022 سے پہلے 50 فیصد سے کم نمبر لینے والے طلبہ کو سائنس گروپ میں داخلہ نہیں دیا جاتا تھا، مگر اب 40 فیصد والے طلبہ کو بھی داخلہ دیا جا رہا ہے، جس سے نتائج کی شرح مسلسل گر رہی ہے۔
نصاب میں سنگین خامیاں: فزکس کی کتاب میں ریاضی کے پیچیدہ تصورات (Calculus) شامل کر دیے گئے ہیں، جو طلبہ نے پہلے نہیں پڑھے۔ کچھ موضوعات ایسے بھی ہیں جو انٹر سال دوم میں ہونے چاہیے تھے مگر انہیں سال اول میں شامل کر دیا گیا ہے۔
امتحانی عمل میں بے ضابطگیاں: امتحانی کاپیوں کی جانچ کا نظام متاثر ہوا، ہزاروں کاپیاں اساتذہ نے گھروں پر چیک کیں، کچھ جگہوں پر نرمی برتی گئی اور کچھ پر غیرضروری سختی کی گئی، جس سے مارکس میں بڑا فرق آیا۔

اب تک 27 ہزار 700 طلبہ نے اپنے مارکس کی اسکروٹنی کے لیے درخواستیں دی ہیں، لیکن فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر ایکشن نہ ہونے کے باعث وہ تاحال نتائج کے منتظر ہیں۔ دوسری جانب، 28 اپریل سے نئے امتحانات بھی شروع ہو رہے ہیں، اور طلبہ کو معلوم نہیں کہ انہیں کون سے پرچے دوبارہ دینے ہوں گے۔رپورٹ میں کئی اصلاحات کی تجاویز دی گئی ہیں، جن میں امتحانی عمل کی شفافیت کے لیے تین ڈپٹی چیئرمین کی تعیناتی، اساتذہ کو جانچ کے مناسب معاوضے کی فراہمی، اور اسکروٹنی کے عمل کو تیز کرنا شامل ہیں۔ تاہم، حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہ ہونے کے باعث طلبہ اور والدین میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔متاثرہ طلبہ اور والدین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرے اور امتحانی نتائج پر نظرثانی کرے تاکہ ہزاروں طلبہ کا تعلیمی مستقبل متاثر نہ ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button