حکومتیں بدلیں،سال بدلے،حکمران بدلے نہ بدلے تو ضلع لیہ کے نشیبی علاقوں میں رہنے والے علاقہ مکینوں کے حالات بدلے

ملک اختر جونی، فخر عباس سمیت دیگر کی پریس کانفرنس،احتجاج کا دائرہ وسیع کرنے کا عندیہ دے دیا
لیہ(نیوز رپورٹر)حکومتیں بدلیں،سال بدلے،حکمران بدلے نہ بدلے تو ضلع لیہ کے نشیبی علاقوں میں رہنے والے علاقہ مکینوں کے حالات بدلے۔گزشتہ تین دہائیوں سے جاری دریائے سندھ کی تباہی نے کروڑ لعل عیسن کے بیٹ مونگڑھ سمیت دیگر مواضعات اور بستیوں کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ علاقہ مکینوں کی قیمتی فصلیں،سونا اگلتی زمینیں، دن رات محنت کر کے بنائے گئے مکانات اور سرکاری املاک دریا برد ہونے کا سلسلہ نہ تھم سکا۔ ہر سال غریب کسانوں کی جمع پونجی دریا برد ہوتی رہی لیکن دریائے سندھ کے کٹاؤ کی روک تھام کے لئے کوئی سد باب نہ کیا جا سکا۔ عرصہ دراز سے جاری احتجاج، درخواستیں، اپیلیں، مطالبات جوں کے توں برقرار۔ پنجاب حکومت اور ضلعی انتظامیہ صرف طفل تسلیاں دینے کی حد تک محدود رہ گئی۔ علاقہ مکینوں نے مجبوراً 25 فروری کو بڑے پر امن احتجاج کا اعلان کر دیا۔ ملک اختر جونی اور فخر عباس سمیت دیگر نے نشیبی علاقوں میں زندگیاں بچانے کے لئے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے پر امن دھرنا دینے کا عندیہ دے دیا۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ کے کٹاؤ کو روکنے کے لئے مستقل مزاجی سے اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے آج نشیب مکمل طور پر دریا کی نظر ہونے کے قریب ہے۔ مختلف حکومتیں آئیں، وعدے وعید کئے لیکن وفا کچھ بھی نہ ہوا۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ صرف سپر بند کی تعمیر ہی دریائی کٹاؤ روکنے کا واحد حل ہے۔ ہمیشہ کروڑوں روپے کے پتھر ڈال کر علاقہ مکینوں کو رام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ پتھر بھی دریا کھا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ کٹاؤ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا ہی جاتا ہے اگر دریائی کٹاؤ کو روکنے کے لئے فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کئے گئے تو مجبوراً احتجا ج کا دائرہ کار وسیع کرنا پڑے گا۔ان کی پنجاب حکومت سے گزارش ہے کہ دریائے سندھ کو لگام ڈالی جائے اور سپر بند کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے تاکہ زرعی اراضی اور فصلوں کے ساتھ ساتھ مکانوں اور دیگر عمارتوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔