کالم

امر بیل……حصہ اول

میں خلق خدا کے اس طبقے سے تعلق رکھتی ہوں، جو ہر مسیح اپنے خوابوں کا گلا گھونٹ کر خود کو دن بھر ملنے والی نت نئی اذیتوں کے لیے ذہنی طور پر تیار کر لیتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں نے کم عمری میں ہی اپنی محرومیوں سے دوستی کر کے خواہشات کے
جزیرے پر جینا سیکھ لیا تھا۔ امی نے جب کبھی ابو کے سامنے اپنے بے گھر ہونے کارو نارویا، جواب ہمیشہ یہی ملا۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ تم بھی اس رب کائنات کی مصلحت میں خوش رہنا سیکھ لو۔ دیکھنا، ذہنی و قلبی سکون محسوس کرنے لگو گی۔“ ”ہاں… بشر طیکہ میری قلبی حرکت ذہنی پریشانیوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈال
احمد کو اپنی بیماری کا احساس دلا جاتیں، تو وہ ناک عینک اُتار کر میز پر رکھتے اور شفقت بھرے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کرتے۔ ”دل چھوٹا نہیں کرتے تانیہ بیگم!حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ وقت کا تو کام ہی گردش کرنا ہے۔ تم دیکھنا ایک دن ہم اپنا گھر ضرور بنا لیں گے… وہ صرف اور صرف
چند لمحے توقف کے بعد ای انسانیت کس لة لا سلیمان سمی
تمہاری سلطنت ہو گی۔ وہاں ہر وہ متانون نافذ ہو گا، جو تم چاہو گی۔“
میں ابو کے ان دو چار جملوں میں اک عجیب سا کرب اور بے بسی محسوس کیا کرتی تھی۔ سچ بھی یہی تھتا کہ آخر کون چاہتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے ہمراہ ساری زندگی کرایے کے مکان میں گزار دے، اُس کی خزاں زدہ زندگی میں بہار کبھی اپنے پنکھ نہ پھیلائے۔ گھر سے محبت بھی تو ماں کی گود کی طرح ہے۔ انسان جہاں پیدا ہوا،
اپنے والدین کی انگلی پکڑ کر چلنا اور سنہرے مستقبل کے خواب بننا سیکھے ہوں، اس جگہ کو وہ کیسے بھلا سکتا ہے. لوگ تو سات سمندر پار سے بھی اپنا آخری وقت آبائی گھروں میں گزارنے کے لئے لوٹ آتے ہیں۔ ایسے میں کسی بے گھر شخص کی شرے میں کیا شناخت ہو سکتی ہے؟
کچھ جانتے ہوئے بھی ابو سے مختصر بحث کے بعد امی بے بسی کے عالم میں یری جانب دیکھتیں، تو میں فوراً نظریں جھکا کر کسی کام کے بہانے پاس سے اُٹھ جایا کرتی تھی۔ اس کہ وجہ ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ میں نے دو سال قبل کالج کو خیر باد کہہ دیاھت۔ میری شکل و صورت بھی بری نہیں تھی، شاید اسی وجہ سے انہیں میرا رشتہ کسی اچھی جگہ نہ ہونے کا دکھ اندر ہی اندر کھائے چلا جار ہا تھی۔ ایس
لمحے مجھے اپنی بے مقدری کا احساس کئی گنا بڑھ جاتا تھا، جب لوگ میری تو تربیت کو یکسر نظر انداز کر کے صرف اس وجہ سے ٹھکر اجاتے تھے کہ باپ محکمہ انکم ٹیکس میں ملازمت کرتا ہے، اکلوتی بیٹی ہے، مگر پھر بھی اپنا گھر نہیں ہے۔ جو لوگ زندگی بھر گھر نہ بنا کے ، وہ بیٹی کو جہیز میں دعائوں کے علاوہ ، بھلا اور کیا دے سکتے ہیں …!
مجھے یاد ہے کہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو جیسے ہی ابو تنخواہ لے کر گھر پہنچتے تھے، امی سب سے پہلے کرایے کی رفتم اُس میں سے الگ کر لیا کرتی تھیں۔ سلیمان احمد ! میں ہر ماہ کر ایسے الگ کرتے ہوئے یہ ضرور سوچتی ہوں کہ ہم تو شاید کماتے ہی مالک مکان کے لیے ہیں۔ اس آزاد ملک میں رہنے کے لیے ہمیں اپنی ایک ایک سانس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ دو دن کرایہ دینے میں تاخیر ہو جائے ، تو مالک مکان ماتھے پر آنکھیں رکھ کر دروازہ پیٹ ڈالتا ہے۔ آخریہ گھروں کے مالکان ہمیں خود سے کمتر کیوں سمجھتے ہیں؟“
یہ سب میرے رب کا نظام ہے تانیہ بیگم !وہ کسی کو دے کر آزماتا ہے، تو کسی سے
واپس لے کرابو کے لہجے اور انداز میں وہی ازلی سکون دیکھ کر امی سر پکڑ لیتی تھیں، جب کہ میں ان کی راسیتی تقسیں جھنجھلاہٹ دیکھ کر مسکرادیا کرتی تھی۔
چین دنوں فہیم سے میرے رشتے کی بات چل رہی تھی، امی کچھ زیادہ خویش نہیں جن ہیں۔ فہیم کی کسی پرائیویٹ فرم میں اوسط درجے کے ملازمت تھی۔ حاندان ریف بھت اور فیملی بھی زیادہ بڑی نہیں تھی، اس کے باوجود امی کو یہ رشتہ دل سے قبول نہیں تھا۔ انہیں اس بات پر شدید اختلاف بھتا کہ فہیم کے پاس اپنا ر نہیں ہے۔ ان کے نقطہ نظر سے ابو بھی متفق تھے لیکن اپنی قناعت پسندی نے
س بار بھی انہیں فہیم کے حق میں دلائل دینے پر مجبور کر دیا تھا۔ بیگم ارشتہ بہت معقول ہے۔ بچہ اور اس کے گھر والے بھی دیکھے بھالے ہیں۔ اگر گھر نہیں تو کیا ہوا ؟ ساری دنیا اپنے گھروں میں تو نہیں رہتی۔ اللہ نے چاہا تو ایک دن فہیم بھی اپنا گھر بنا لے گا۔“ اس قدر آسان ہو تا، تو آج ہم لوگ بھی بے گھر نہ ہوتے۔ یہ ت نفسا نفسی کا دور ہے سلیمان احمد ! پیہ ہمیشہ پیسے والے پر ہی مہربان ہوتا ہے۔ جس کے پاس آج ایک مکان ہے ، کل دو ہونے کی امید تور کبھی جاسکتی ہے، مگر کرایے دار تو چھید کیے ہوئے برتن کی طرح ہوتا ہے۔ اُس کی کمائی میں برکت
ہوتی۔ اُسے جینے کے لیے ہر سانس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔“
تم وسوسوں میں پڑنے کی بجائے حقیقت پسند بنو۔ بیٹیوں کو زیادہ عرصہ گھر بٹھائے رکھنا دانش مندی نہیں۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کر چکی ہے۔ چند سال مزید گزر گئے ، تور شتوں کا کال پڑ جائے گا۔ اور میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹی پر کبھی ایسا وقت آئے۔ جلد بازی میں انکار کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل
اس کے ہر پہلو کا جائزہ لینا ہو گا۔“
ابو جان کے اصرار پر امی نے فہیم کے بارے میں نیم رضامندی کا اظہار تو کر دیا ھتا ، لیکن دل سے خوش نہیں تھیں۔ فهیم کارشته تایا جان کی معرفت آیا بھت۔ بات ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچی تھی کہ میری زندگی کا منحوس ترین لمحہ آن پہنچا۔
ابو اور امی کسی عزیز کی عیادت کے لیے اسپتال جارہے تھے کہ ان کی موٹر بائیک پر ایک تاتل بس چڑھ دوڑی۔ عینی شاہدوں کے مطابق حادثہ اس مقتدر اچانک پیش آیا تا کہ میرے والدین کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اور وہ ہمیشہ کے لیے مجھے بے یارومددگار چھوڑ کر فلک کے اُس پار جا بسے، پھر مجھے بھی کرایے کا مکان چھوڑ کر تایا جان کے ہاں منتقل ہونا پڑا۔ تایا جان کو کبھی مجھ سے انسیت نہیں رہی تھی۔ اُن کے مالی حالات ہم سے بہتر تھے۔ یہی تھی کہ وہ صرف عید، شب برات پر ہی ہمارا حال احوال پوچھنے کی زحمت کرتے تھے۔ وہ مجھے اپنے ہاں صرف برادری کا منہ بند کرنے کے لیے لائے تھے۔ رہی سہی کسر تائی جان نے پوری کر دی۔ وہ مجھے اپنے بیٹیوں کے لیے نحوست قرار دے کر جلد از جلد بیاہنے پر تلی ہوئی تھیں، حالانکہ یہ کیسے ممکن بھتا کہ میری موجودگی سے ان کی
بیٹیوں کے حقوق غصب ہو جاتے ! سلیمان احمد تحت تو میرا بھائی، لیکن عقل سے بالکل پیدل تھے۔ انکم ٹیکس جیسے محکمے میں افری کے باوجود اکلوتی بیٹی کو کرایے کے مکان میں چھوڑ گیا۔ لوگ صحیح کہتے تھے کہ جس روز شہر میں سو احمق مرے تھے، اسی روز سلیمان احمد نے دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ساری زندگی ایمانداری کا میڈل سینے پر سجائے خود بھی ذلیل ہوتا رہا اور اولاد کے لیے بھی کچھ نہ کیا۔“

تایا جان ہر چوتھے روز ڈائنگ ٹیبل پر زہر فشانی شروع کر دیتے تھے۔ اُن کے الفاظ میری روح تک کو چھلنی کر جاتے تھے، مگر مجھے صبر سے کام لینا بھت، کیونکہ زندگی نے کبھی مجھے دوسرا آپشن دیا ہی نہیں تھا۔ جلد مجھ پر یہ عقد بھی کھل گیا کہ اس سنگ زنی کا مقصد مجھے ذہنی طور پر فہیم سے شادی کے لیے تیار کرناھت۔ تائی جان کو مجھ سے حسان چھڑانے کا یہی طریقہ سوجھا تھا۔ چنانچہ ایک روز تایا جان نے اپنی مجبوریوں کارونا روتے ہوئے مجھ سے اس رشتے کی بابت حتمی رائے طلب کی، تو میں نے ان کے فیصلے کو اپنا فیصلہ قرار دے کر مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ فیصلہ تو شاید وہ پہلے ہی کیسے بیٹھے تھے ، بس کارروائی کے طور پر میری ہاں سننا باقی تھی۔
چند روز بعد سادگی سے میر ا نکاح فہیم رضا سے کر دیا گیا اور رخصتی بھی ہو گئی۔ فہیم متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے والد وفات پاچکے تھے ، جب کہ والدہ یات تھیں۔ وہ دو بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ ان کے گھریلو مسائل بالکل وہی تھے جن سے میں ساری زندگی نبرد آزمارہی تھی۔ شاید اسی لیے پیا گھر پہنچ کر مجھے اجنبیت ا احساس بالکل نہیں ہوا بھت۔ فہیم مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ وہ اپنی بساط یں رہتے ہوئے میری ہر خواہش پوری کر دیا کرتے تھے۔ میں خود بھی اپنی زندگی سے بہت س تھی، لیکن یہ کسک اکثر دل کو افسردہ کر دیا کرتی تھی کہ کاش میرا بھی کھر ہوتا، جسے میں بہت محبت اور چاہت سے سنوارتی، جس کی ایک ایک اینٹ سے میری جذباتی وابستگی ہوتی اور اس کے درو دیوار ہر پل مجھے تحفظ کا احساس دلاتے ، مگر افسوس کہ یہ خواب و خیال کی باتیں تھیں۔ شادی کے بعد میرا صرف ٹھکانہ بدلات، حالات نہیں۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو فہیم اپنی خون پسینے کی کمائی لے کر گھرم نل ہوتے ، تو میں اپنی ماں کی طرح سر پکڑ لیتی۔ گھر کی کفالت فہیم کے ذمہ تھی۔ وہ بہت جاں فشانی سے محنت کر رہے تھے۔ یہ ان کی محنت کا صلہ تھا کہ صرف دو سال کے اندر انہوں نے اپنی دونوں بہنوں کو بیاہ کر اپنے اپنے گھر رخصت کر دیا۔ شادیوں کی تقریب بہت سادگی سے منعقد ہوئی تھی، لیکن پھر بھی مرض کا سہارا لینا ہی پڑ ھتا۔
وقت کا پہیہ اپنی مخصوص رفتار سے گھومتا رہا اور زندگی کے دس سال گزر گئے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹی نادیہ اور بیٹے قاسم کی انمول نعمت سے نواز دیا بھتا، جب کہ فہیم کی والدہ اور میرے تایا جان ایسی دنیا ہسے منہ موڑ گئے۔ ہم اپنی زندگی سے کافی حد تک مطمئن تھے۔ گو آمدن زیادہ نہیں تھی کہ ہر آسائش میسر ہو ، پھر بھی اللہ کا شکر بھت کہ کبھی بھوکے نہیں سوئے تھے۔
ایب ہماری زندگی کا اہم ترین مقصد اپنے گھر کا حصول بھت۔ ہماری اپنی زندگی تو جیسے تیسے گزر رہی تھی، مگر دل میں یہ خواہش ضرور تھی کہ اپنی اولاد کو اس ذلت سے بچایا جائے۔ فہیم خود بھی اس سلسلے میں پُر عزم تھے۔ انہی دنوں اُن کے ایک دفتری ساتھی نے اپنا پلاٹ فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ پلاٹ شہر کی ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بھت۔ فہیم نے مجھ سے مشورے کے بعد وہ پلاٹ خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ تمام تر جمع پونجی کا حساب لگانے کے باوجود ہمارے کا پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ پلاٹ کی قیمت ادا کی جاسکتی۔ بہت سوچ بچار کے بعد
میں نے اپنا تمام زیور لا کر فہیم کی جھولی میں ڈال دیا۔
(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button