پاکستان

یومِ خواتین کا آغاز کب ہوا اور رواں برس کا موضوع کیا ہے؟

عالمی یومِ خواتین: تاریخ، اہمیت اور پاکستان میں خواتین کی صورت حال

ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں عالمی یومِ خواتین منایا جاتا ہے۔ یہ دن خواتین کی سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی کامیابیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صنفی مساوات کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد کو تسلیم کرنے کے لیے وقف ہے۔ یہ دن نہ صرف خواتین کی قربانیوں اور خدمات کو سراہتا ہے بلکہ معاشرے میں ان کے کردار کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بھی ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔

عالمی یومِ خواتین کی بنیاد 20ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی۔ 1908ء میں امریکی ریاست نیویارک میں 15 ہزار محنت کش خواتین نے کام کے بہتر حالات، کم اوقاتِ کار، برابر اجرت اور ووٹ کا حق مانگتے ہوئے ایک تحریک شروع کی۔ یہ تحریک خواتین کے حقوق کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ 1910ء میں کوپن ہیگن میں منعقدہ سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس میں جرمنی کی خواتین حقوق کی کارکن کلارا زیٹکن نے خواتین کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز کو 17 ممالک کی 100 خواتین نے متفقہ طور پر قبول کیا۔

1911ء میں پہلی بار آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں یہ دن منایا گیا۔ 1975ء میں اقوامِ متحدہ نے اس دن کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا اور 1977ء میں اسے عالمی سطح پر قبول کر لیا گیا۔ تب سے ہر سال 8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔

عالمی یومِ خواتین کا مقصد

عالمی یومِ خواتین کا بنیادی مقصد خواتین کی سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی کامیابیوں کو سراہنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دن صنفی مساوات کے حصول کے لیے خواتین کی جدوجہد کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ ہر سال اس دن کے لیے ایک خاص تھیم منتخب کی جاتی ہے، جو خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کے حوالے سے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔

2024ء کی تھیم اقدامات میں تیزی ہے، جس کا مقصد صنفی مساوات کے حصول کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہے۔ اس تھیم کے تحت خواتین کو معاشرے میں برابر کے مواقع فراہم کرنے کے لیے تیز رفتار اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

پاکستان میں خواتین کی صورت حال

پاکستان میں خواتین کی صورت حال کافی پیچیدہ ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، صنفی مساوات کی عالمی فہرست میں پاکستان 146 ممالک میں سے 145 ویں نمبرپر ہے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں خواتین کے ساتھ صنفی تفریق کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔

1. معاشی تفریق: پاکستان میں خواتین کی آبادی تقریباً نصف ہے، لیکن وہ معاشی طور پر مردوں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں 18 فیصد کم اجرت دی جاتی ہے۔ زرعی شعبے میں 68 فیصد خواتین کام کرتی ہیں، لیکن ان میں سے 76 فیصد بغیر اجرت کے اپنے خاندان کی مدد کرتی ہیں۔

2. لیبر فورس میں شرکت: پاکستان میں خواتین کی لیبر فورس میں شرکت بہت کم ہے۔ صرف 23 فیصد خواتین لیبر فورس کا حصہ ہیں، جبکہ 4 کروڑ سے زائد خواتین لیبر فورس سے باہر ہیں۔

3. پیشہ ورانہ شعبوں میں نمائندگی: پیشہ ورانہ نوکریوں میں بھی خواتین کی نمائندگی مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ منیجر لیول پر 2.33 فیصد مرد جبکہ صرف 0.14 فیصد خواتین موجود ہیں۔

4. تعلیمی صورتحال: خواتین کی تعلیمی شرح خواندگی بھی مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح زیادہ ہے، جس کی وجہ غربت اور سماجی رکاوٹیں ہیں۔

5. سیاسی نمائندگی: سیاسی میدان میں بھی خواتین کی نمائندگی محدود ہے۔ اگرچہ پاکستان میں خواتین کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں ہیں، لیکن ان کی فعال شرکت ابھی بھی کم ہے۔

 خواتین کے حقوق کے لیے اقدامات

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

1. قوانین میں تبدیلی: خواتین کے تحفظ کے لیے کئی قوانین بنائے گئے ہیں، جیسے خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ ایکٹ 2021۔ اس کے علاوہ، خواتین کو وراثت میں ان کے حقوق دلانے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔

2. تعلیمی پروگرام: خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کئی پروگرام شروع کیے گئے ہیں، جیسے **بنیاد ادھار اسکیم**، جس کے تحت غریب خواتین کو تعلیم کے لیے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔

3. معاشی بااختیاریت: خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے **خواتین کے لیے مائیکرو فنانس اسکیم** شروع کی گئی ہے، جس کے تحت خواتین کو چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے لیے قرضے دیے جاتے ہیں۔

4. سیاسی نمائندگی: خواتین کی سیاسی نمائندگی کو بڑھانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ خواتین کو سیاسی عمل میں شامل کرنے کے لیے تربیتی پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔

 مستقبل کی راہ

عالمی یومِ خواتین صرف ایک دن کی تقریب نہیں ہے، بلکہ یہ خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کا ایک تسلسل ہے۔ پاکستان میں خواتین کو صنفی مساوات کے حصول کے لیے ابھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق، موجودہ رفتار سے ترقی جاری رہی تو مکمل صنفی مساوات حاصل کرنے میں 2158ء تک کا وقت لگے گا۔

اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:

1. تعلیم کو فروغ: خواتین کی تعلیمی شرح کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح کو کم کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

2. معاشی مواقع: خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے انہیں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔

3. قوانین کا نفاذ: خواتین کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔

4.سماجی رویوں میں تبدیلی: خواتین کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کو ختم کرنے کے لیے سماجی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

عالمی یومِ خواتین خواتین کی کامیابیوں کو سراہنے اور صنفی مساوات کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد کو تسلیم کرنے کا دن ہے۔ پاکستان میں خواتین کو ابھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن مناسب اقدامات کے ذریعے انہیں صنفی مساوات کے حصول میں مدد دی جا سکتی ہے۔ ہمیں خواتین کو معاشرے میں برابر کا مقام دلانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنی ہوں گی، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لا سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button