لیہ

میڈم امیرا بیدار کی صورت میں سابق ڈپٹی کمشنر لیہ مصطفی زیدی و انکی جرمن ہم سفر ویرا زیدی Vera Zaidi کے دور میں ہوئی بے مثال ترقی و منفرد خدمات کی جھلک نظر آرہی ہے

بڑے گھرانے کی آئرن لیڈی ڈپٹی کمشنر لیہ میڈیم امیرا بیدار کی خدمات کے بدولت لیہ،پاکستان میں بالعموم و پنجاب میں بالخصوص ترقی کے نئی بلندیوں کی طرف گامزن ہے۔

میں اکثر اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ لیہ جنوبی پنجاب کا ایک باشعور خطہ ہے مثال کے طور پر لیہ شہر کا صوبائی حلقہ شاید پنجاب کا وہ واحد حلقہ ہوگا جہاں آپ کو ہر دفعہ ایک نیا نمائندہ منتخب ہوتے ہوئے دیکھنے کو ملتا ہے، کبھی چودھری اصغر علی گجر، کبھی تھند صاحبان، کبھی سردار بابر خان کھتران، کبھی چودھری اشفاق، کبھی پیر رفاقت علی گیلانی تو کبھی چودھری اسامہ گجر وغیرہ وغیرہ، اس کے علاوہ تحصیل کروڑ لعل عیسن و تحصیل چوبارہ کے لوگ بھی اسی طرح شعور یافتہ ہیں۔ سیاسی پہلوؤں کے علاؤہ مذہبی و ماحولیاتی پہلوں کے حوالے سے بھی لیہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے، کراچی یونیورسٹی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی پروفیسر Naom Chomsky نے کہا کہ پاکستان کو مستقل قریب میں تین بڑے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں 1- بڑھتی ہوئی آبادی (Population Explosion) 2- انتہاء پسندی (Extremism) اور 3- ماحولیاتی تبدیلیاں (Climate Change). لیہ میں ان تینوں چیزوں کے بارے میں کافی حد تک شعور پایا جاتا ہے۔انقلاب ایران کے بعد بدقسمتی سے فرقہ وارانہ کشیدگی پاکستان میں عروج پر تھی، لیہ کے ملحقہ اضلاع جھنگ، بھکر وغیرہ شدید متاثر ہوئے تھے لیکن اس سب کے باوجود لیہ کے لوگوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں فرقہ واریت کو بالکل ریجکٹ کیا،آج بھی تمام فقہاء کے لوگ لیہ میں بڑی تعداد میں ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ڈاکٹر اشو لال فقیر جیسے شخصیات کی کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں انہوں نے دریائے سندھ و قدرتی وسائل کی اہمیت سے لوگوں کو ہمیشہ آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے، لیہ و لیہ کے باسی سندھ تہذیب (Indus Valley civilization)کے وارث ہیں۔ لیہ کے مغرب میں فارس کی تہذیب (Persian Civilization) واقع ہے، تاریخی طور پر بڑے دریا، پہاڑی سلسلے وغیرہ مختلف تہذیبوں کے درمیان بارڈر کا کردار ادا کرتے تھے۔ خیر ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے لئے پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔

لیہ ہمیشہ سے بیدار تھا، اب لیہ کو امیرا بیدار بھی مل گئیں آج وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے اسٹیج پر بلا کر انکی تعریف کی، یقیناً میڈیم صاحبہ اس سب کے حقدار تھیں، انگریزی میں کہیں تو She earned that all. انہوں نے ریونیو و دیگر انتظامی امور کے حوالے سے کافی کام کیا، میں نے انہیں ہمیشہ ADCs, ACs, تحصیلداران، میونسپل آفیسرز، ڈاکٹرز وغیرہ کو ہمیشہ لیہ کے خدمت کے لئے زور دیتے پایا۔ محدود وسائل میں انہوں نے ریونیو، صفائی ستھرائی کے معاملات، ہیلتھ، تعلیم کے حوالے سے منفرد کام کئے اور راقم اس سب کا شاہد ہے۔آج لیہ کے لوگوں کے لیے میڈیکل کالج کا قیام ایک سنگ میل ہے۔

یہاں میں لیہ کے سیاسی قیادت کے کوششوں کو بھی سراہوں گا کیونکہ جب لوگوں کے خاطر Public Representatives اور Public Servants مل کے کام کرتے ہیں تب ہی کامیابی ممکن ہوتی ہے۔ کیونکہ میرا مضمون ریونیو ہے اس حوالے ڈپٹی کمشنر صاحبہ کی قیادت میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو جلد انصاف کو یقینی بنانے، پراپرٹی میں خواتین کے حقوق کی تحفظ کے لیے کوشاں ہیں، اس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر صاحبہ کی ہدایت پر انہوں نے پوری ضلع کے ریکارڈ کے تحفظ کے لیے ڈسٹرکٹ ریکارڈ روم میں کیمرے نصب کروائے، حکومت پنجاب کے وژن کے مطابق بقایا مینول مواضعات کو آئن لائن کروا دیا. 164 چک تحصیل لیہ میں قبرستان منظور کیا، بستی بیٹ مونگڑ کے مسائل حکومتی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی۔ بستی موسن لوگوں کے مطالبے پر جمعبندی بنانے کے احکامات جاری کیے۔ اس کے علاوہ بھی مفاد سرکار و مفاد عامہ میں لاتعداد کام ہوئے۔

شروع میں راقم نے سابق ڈپٹی کمشنر لیہ و مشہور شاعر مصطفیٰ زیدی اور انکی جرمن بیوی ویرا زیدی کی لیہ کے لئے خدمات کے بارے میں لکھا۔ میں بنیادی طور پر سول انجینئر ہوں لیکن تاریخ (History)میں ماسٹرز بھی کی ہوئی ہے، تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ لیہ کے لئے مصطفی زیدی کی خدمات ایک Benchmark کی حیثیت رکھتی ہیں جس میں انکی جرمن ہم سفر ویرا کےplaning کا بڑا دخل تھا، مصطفی زیدی و انکی بیوی کی خدمات کے اعتراف میں لیہ کے ایک بڑے اسٹیڈیم کانام ویرا اسٹیڈیم (Vera Stadium) ہے۔

میں اپنے تحریر کا اختتام ایک دلچسپ کہانی سے کرتا ہوں کہ مصطفی زیدی کے ایک خاتون دوست تھیں شہناز بیگم۔ تو جب وہ لیہ / ڈیرہ غازی خان میں فرائض منصبی سر انجام دے رہے تھے تو مصطفی زیدی نے انہیں لیہ آنے کی دعوت دی تو شہناز بیگم صاحبہ نے یہ کہہ کر دعوت مسترد کی کہ وہاں کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹیں ہیں، اس پر مصطفی زیدی نے شہناز بیگم کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے ایک غزل قلمبند کی، جس کا مشہور شعر ہے

انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

اس سب کے بعد مصطفی زیدی نے ڈیرہ غازی خان و لیہ کی ترقی کے لیے بہت کچھ کیا، آخر میں، راقم یہی کہے گا میڈم امیرا بیدار صاحبہ نے لیہ کو اس حد تک خوبصورت بنایا کہ اگر آپ سات سمندر پار کسی دوست کو لیہ آنے کی دعوت دیں گے تو وہ شہناز بیگم کے برعکس دعوت ضرور قبول کرینگے۔ والسلام
پاکستان زندہ باد
لیہ پائندہ باد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button