خون کا سی گروپ، یعنی کرکٹ

یہ سال 2017 ہے، اسٹیڈیم کے زرد ہوتے پوسٹر فضا میں جھول رہے ہیں، لیکن ان پوسٹروں میں ایک چہرہ مسکرا رہا ہے۔ یہ سرفراز احمد کا چہرہ ہے، جو چمچماتی ٹرافی تھامے کھڑا ہے۔ پس منظر میں ایک پرجوش ہجوم کے نعرے گونج رہے ہیں، "پاکستان زندہ باد! پاکستان زندہ باد!” لیکن صرف 8 سال بعد آج منظر مختلف ہے۔ آج وہی اسٹیڈیم خاموش ہے۔ بینچوں پر شرمندگی کے سائے ہیں، کرسیاں سنسان ہیں اور میدان یوں خالی ہے جیسے کبھی کوئی خواب یہاں بُنا ہی نہ گیا ہو۔ یہ خاموشی کسی معمولی شکست کا نوحہ نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کے ٹوٹے ہوئے سپنوں کا ماتم ہے۔ یہ ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کہانی ہے۔
فروری کا مہینہ، 24 تاریخ اور راولپنڈی کا اسٹیڈیم، جب نیوزی لینڈ نے بنگلہ دیش کو پانچ وکٹوں سے شکست دی، تو بنگلہ دیش نہیں ہارا بلکہ چیمپئنز ٹرافی 2025 کے دروازے پاکستانی ٹیم پر بند ہوگئے۔ کیا یہ کوئی اتفاقیہ حادثہ تھا؟ نہیں، یہ تو ایک کہانی تھی، جو کئی مہینوں سے لکھی جا رہی تھی۔ ابتدائیہ کراچی میں لکھا گیا، جب ہم ساٹھ رنز سے ہارے، پھر کلائمیکس دبئی میں تحریر ہوا، جب بھارت نے چھ وکٹوں سے ہمیں روند ڈالا۔ ہر شکست کے بعد امید کی شمع بجھتی چلی گئی، جیسے کوئی اندھیرے کا جال بُن رہا ہو اور ہم بے بسی کے ساتھ تماشائی بنے کھڑے ہوں۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے، کیا واقعی ہماری ٹیم کھیلنے آئی تھی؟ یا یہ سب ایک رسم تھی، جس میں ہار ماننے کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا؟ دبئی کا وہ بدقسمت دن، جب ویرات کوہلی کے بلے سے نکلتی ہر ضرب، پاکستانی دلوں پر نقش چھوڑتی چلی گئی۔ یہ کوئی عام شکست نہیں تھی، بلکہ ایک ایسا زخم تھا جو نہ صرف گراؤنڈ پر، بلکہ گھروں، گلیوں اور چائے کے کھوکھوں میں بیٹھے ہر کرکٹ دیوانے کے دل پر لگا تھا۔ ہماری بیٹنگ ریت کی دیوار ثابت ہوئی، باولنگ میں وہ آگ نہ رہی، جو کبھی مخالف ٹیموں کو جھلسا دیا کرتی تھی، اور حکمتِ عملی؟ وہ تو یوں غائب تھی جیسے کسی نے گلاب کے باغ میں خزاں کا راج قائم کردیا ہو۔
شائقین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ ہر شکست کے بعد وہی بے روح جملے، وہی بے معنی تاویلیں۔ وسیم اکرم کا صبر بھی جواب دے گیا، برملا کہہ دیا، "اگر آئندہ جیتنا ہے تو چھ کھلاڑیوں کو باہر نکالنا ہوگا۔” لیکن سوال یہ ہے، کیا صرف چھ کافی ہوں گے؟ یاد کریں 2017، جب ہم فاتح تھے، جب گرین شرٹس چیمپئنز ٹرافی اٹھا رہے تھے، جب ہر چہرے پر خوشی اور ہر آنکھ میں چمک تھی۔ وہ لمحہ کیسا تھا؟ اور آج؟ آج سرفراز کہاں ہے؟ وہ جوش، وہ ولولہ کہاں گیا؟ کیسا انصاف ہے کہ جو جیتے تھے، انہیں تاریخ کے اوراق میں دفن کردیا گیا، اور جو بار بار ہارتے ہیں، وہی میدان میں موجود ہیں، وہی ہیرو ہیں؟ کیا یہ ہمارے ہیرو ہوسکتے ہیں ؟
شاہین آفریدی! وہی نوجوان جس کی تیز گیندیں کبھی بیٹسمین کے لیے بھیانک خواب ہوا کرتی تھیں، آج چوکے، چھکے کھا رہا ہے۔ ہر میچ میں وہی کہانی، وہی بے بسی۔ اور کپتان محمد رضوان، ہر بار اُسی باؤلر کو گیند تھما دیتا ہے، جس کی پٹائی ہو رہی ہو۔ کیوں؟ کیونکہ ہماری کرکٹ میں حکمتِ عملی نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی۔ ابرار احمد واحد اسپنر جسے دبئی کی پچ پر کھلایا گیا، جیسے ہم نے فیصلہ کرلیا ہو کہ ایک ہی اسپنر کافی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ابرار اچھا کھلاڑی ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ ایک سپنر سے پورے میچ کا بوجھ اٹھانے کی توقع رکھنا، کہاں کی عقل مندی ہے؟ کہاں کی دانش ہے؟
اور پھر ہار کے بعد وہی خاموشی، وہی بے حسی۔ پی سی بی کے در و دیوار پر سناٹا چھایا ہوا ہے۔ کوئی بیان، کوئی معذرت، کوئی ندامت نہیں۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ مگر یہ خاموشی، کہیں کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں؟ کیا چیئرمین پی سی بی، محسن نقوی واقعی "کچھ انقلابی” کام کریں گے؟ یا یہ سب بھی محض ایک سراب ہوگا؟
اور رہے "پاکستان شاہین”؟ تو تین پریکٹس ٹیمیں بنا کر افغانستان اور بنگلہ دیش کو ہرانے سے کیا حقیقت بدل سکتی ہے؟ کیا اس سے اصل ٹیم کی شرمندگی کا داغ دھل سکتا ہے؟ یا یہ سب بس عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک کوشش تھی؟
اگلا ہدف، ایشیا کپ 2025 ہے! لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹورنامنٹ بھارت میں ہوگا، اور پاکستان اپنے تمام میچز دبئی میں کھیلے گا۔ کیوں؟ کیونکہ ہماری کرکٹ اب ہماری سرزمین پر نہیں، غیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ بات تلخ سہی، مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم اپنی ہی پچ پر کھیلنا بھی بھول گئے ہیں۔
اور وہ نوجوان جو لاہور کی تنگ گلیوں سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک کرکٹ کھیلنے کا خواب دیکھتے ہیں، جو گرین شرٹ پہننے کی تمنا رکھتے ہیں، جو پاکستان کی نمائندگی کرنے کی آرزو کرتے ہیں، وہ کیا سوچ رہے ہوں گے؟ آج وہ ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے شکست پر آنسو بہا رہے ہیں۔ کیا ہم ان کے خوابوں کو بچا سکیں گے؟ یا انہیں بھی مایوسی کے سمندر میں ڈبو دیں گے؟ کیا ہم ان نوجوانوں کی امیدوں کا چراغ جلائے رکھ سکیں گے؟ یا انہیں بھی مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے؟
کیا وہ دن لوٹ کر واپس آسکتے ہیں، جب گرین شرٹس میدان میں اتریں اور جیت کی خوشبو ہر سمت پھیل جائے؟ جب اسٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھے، اور ہم فخر سے کہہ سکیں، "ہاں! یہ ہماری ٹیم ہے”۔
لیکن یہ خواب تب تک حقیقت نہیں بنے گا، جب تک ہم یہ نہ سمجھیں کہ کرکٹ محض ایک کھیل نہیں، یہ ہماری قومی پہچان بن چکا ہے، یہ ہماری رگوں میں دوڑتا لہو ہے، کرکٹ اب ہمارے خون کا سی گروپ ہے۔
یہی وہ جذبہ ہے جو قوم کو جوڑتا ہے، یہی وہ کھیل ہے جو قوم کو جیتنا سکھاتا ہے۔ اگر نظام کے کرتا دھرتا واقعی کرکٹ سے محبت کرتے ہیں، تو انہیں آگے آنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ لکھے گی کہ ہم نے صرف شکستیں دیکھیں، زخم سہے، اور ماضی کی کہانیاں سناتے رہ گئے۔
تعارف:
اس تحریر کے مصنف مصطفیٰ صفدر بیگ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور آج کل ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سے وابستہ ہیں ، انہیں x.com پر
پر فالو کیا جاسکتا ہے۔