سانحہ جعفر ایکسپریس میں دہشتگردوں کے لئے خوف کی علامت شہید لانس نائیک مزمل حسین کی خواہش تھی کہ وہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوں

لیہ کے نواحی شہر فتح پور کے وارڈ نمبر 6 کے رہائشی لانس نائیک مزمل حسین نے متعدد بار والدہ سے درخواست کی کہ وہ دعا کریں کہ ان کے بیٹے کو شہادت نصیب ہو لیکن والدہ کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا وہ یہی کہتی تھی کہ بیٹے کہ تیری تمام نیک خواہشات پوری ہوں
بولان میں سب سے بڑا حملہ 11 مارچ 2025 کو مشکاف اور پنیر کے درمیان جعفر ایکسپریس پر کیا گیا۔ یہ حملہ نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کے حوالے سے بلوچستان میں ٹرینوں پر اب تک ہونے والا بڑا حملہ تھا بلکہ پاکستان کی تاریخ میں ٹرین ہائی جیکنگ کا پہلا واقعہ تھا
شہید لانس نائیک مزمل حسین ولد محمد حسین بھی 11 مارچ کو بی ایل اے کے دہشت گردوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے،والدین،اہل علاقہ، ضلع لیہ کی عوام کا سر فخر سے بلند کر دیا،والد محمد حسین اپنے بیٹے کی شہادت پر نازاں نظر آئے
14 مارچ کو جب شہید کا جسد خاکی اپنے آبائی علاقے فتح پور پہنچا تو نجی سکول دی نیشن کے بچوں اور سول سوسائٹی سمیت اہل علاقہ نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے شہید کا بھر پور استقبال کیا اور سلامی بھی پیش کی
پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے نماز جنازہ کے بعد سلامی پیش کی اور شہید کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا لحد پر پھولوں کے گلدستے چڑھائے گئے سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا درجات کی بلندی کے لئے خصوصی دعا کی گئی
شہید مزمل حسین نے سوگواران میں والد محمد حسین،والدہ،تین بھائی امجد حسین،مبشر حسین،مدثر حسین،بیوہ،دو بچے،نوسالہ بیٹا احمد رضا اور دو سالہ بیٹی عدن فاطمہ چھوڑے ہیں جن کے حوصلے آج بھی پہاڑ کی طرح بلند نظر آ رہے ہیں
شہید کے والد محمد حسین کا غزوہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھاکہ33 سالہ مزمل حسین کو بچپن سے ہی آرمی میں جانے اور شہادت کا شوق تھا،13 سال پاک آرمی میں خدمات سر انجام دیں اور بالآخر منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا
والد کا کہنا تھا میرے بیٹے نے ڈٹ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا شہادت کے رتبے پر فائز ہوا مجھے صرف اپنے بیٹے پر ہی نہیں ملک و قوم کی خاطر قربانی دینے والے ہر پاک فوج کے شہید پر فخر ہے شہداء ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں
شہید کے بھائی مبشر حسین نے بتایا کہ اس کے بھائی نے بے گناہ افراد کی جان بچانے کے لئے قربانی دی، شہادت کا رتبہ حاصل کیا،ہم باقی تین بھائی بھی جب بھی ملک کو ضرورت پڑی جان و مال کے ساتھ حاضر ہیں میرا بھائی جرات و بہادری کا پیکر تھا
شہید مزمل حسین کے خالہ کے بیٹے نے بتایا کہ مزمل حسین کو آرمی میں جانے کا بھی شوق تھا اور وہ ہمیشہ ماں سے کہتا تھا کہ میرے لئے دعا کرنا کہ میں شہید ہو جاؤں ماں کا حوصلہ نہیں ہوتا تھا اس کی حفاظت کے لئے بھی دعا ئیں کرتی تھیں اور ساتھ یہ بھی کہتی تھیں کہ تمہاری نیک خواہشات پوری ہوں
کزن کا کہنا تھا کہ مزمل حسین اکثر کہتا تھا کہ مجھے فتح پور شہر میں کوئی نہیں جانتا باقی سب بھائیوں کی جان پہچان اچھی ہے شہید نے جام شہادت نوش کر کے نہ صرف فتح پور بلکہ ضلع لیہ سمیت ملک بھر میں جان پہچان بنا گئے اور ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے
انہوں نے کہا کہ اب ہماری پہچان ہی مزمل حسین کے نام سے ہو گی اس کی قربانی اور شہادت قیامت کے دن سارے کنبے کی بخشش کا بھی ذریعہ بنے گی، شہید ہمارا فخر ہے ہمارے حوصلے اب بھی بلند ہیں اور ہمیشہ اسی طرح رہیں گے
شہید کے ہمسائے دی نیشن سکول کے پرنسپل محمد نواز نے غزوہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہ پاکستان کی تاریخ پاک فوج کی قربانیوں سے بھری ہے جس کی وجہ سے ہم امن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں مزمل حسین ایسا سپوت تھا جس نے سر فخر سے بلند کر دیا،شہید ہمیشہ زندہ ہوتا ہے مزمل حسین کا خاندان خوش نصیب ہے کہ ان کے خاندان میں ایک شہید بھی موجو د ہے
شہید کا نو سالہ بیٹا احمد رضا بھی اپنے والد کی شہادت پر فخر محسوس کر رہا تھا احمد رضا نے اپنی ننھی بہن عدن فاطمہ کی موجودگی میں پاکستان زندہ باد پاک آرمی پائندہ باد کا نعرہ لگا کر خراج عقیدت پیش کیا اور جوان ہو کر پاک آرمی میں جانے کے عزم کا اظہار کیا