کالم

کسان کی خودکشی… حکومت کی وعدہ خلافی… زراعت لاوارث کیوں؟

پنجاب کی زرخیز دھرتی آج آنسو بہا رہی ہے۔ اس کے محنت کش بیٹے – کسان – جنہوں نے حکومتی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے گندم اگائی، آج مایوسی اور مجبوری کے عالم میں اپنی زندگیوں کا چراغ گل کر رہے ہیں۔

کسان نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق صرف بہاولپور ڈویژن میں پانچ کسانوں نے گندم کے نامناسب نرخ ملنے پر خودکشی کر لی ہے۔ یہ محض ایک خبر نہیں، بلکہ ایک قومی المیہ ہے جو زرعی پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

گزشتہ سیزن میں حکومتِ پنجاب نے کسانوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ گندم اگائیں، انہیں 3000 روپے فی من سپورٹ پرائس دی جائے گی۔ مگر اب جب فصل تیار ہے، کسان کو 2000 روپے فی من سے بھی کم میں گندم بیچنا پڑ رہی ہے، جبکہ لاگت 2800 سے 3000 روپے فی من آ رہی ہے۔

یہ سراسر وعدہ خلافی، ناانصافی اور معاشی قتل ہے۔ کسانوں کو ان کی محنت کا صلہ نہ دینا دراصل پاکستان کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ جبکہ دوسری طرف درآمدی گندم بندرگاہوں پر موجود ہے، مقامی کسان کی گندم سڑکوں پر دھری ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ حکومت جاگے، وعدے پورے کرے، اور کسان کو وہ عزت، سہارا اور معاوضہ دے جس کا وہ حقدار ہے۔
گندم کی فوری اور شفاف خریداری کا آغاز کیا جائے، اور فی من ریٹ 3000 روپے مقرر کیا جائے۔

ورنہ یہ خودکشیاں مزید علاقوں میں پھیلیں گی — اور زراعت کا جنازہ تاریخ لکھے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button