کالم

امر بیل……حصہ دوئم

”یہ تم کیا کر رہی ہو؟ یہ زیور ہی تو ہمار او احد اثاثہ ہے۔ یہ کل نادیہ کی شادی
میں کام آئے گا۔“ وہ تواس زیور بارے بہت دور کی سوچے بیٹھے تھے، لیکن میں نے مصمم ارادہ کرنے کے بعد ہی انہیں زیور فروخت کرنے کے لیے دیا تھت۔ میں نے اُن کا موقف توجہ سے سنا اور پھر قریب بیٹھ کر سمجھایا۔ سونا کبھی بھی عریب کا نصیب نہیں ہوا کرتا۔ یہ صرف ان جھولیوں میں پھلتا پھولتا ہے، جہاں اِ ر نہیں رکھی جاتی۔ عریب تو اس بارے میں سدا کا بد جب بھی اس کے گھر کوئی قیامت ٹوٹتی ہے، اس کی نظر سے پہلے کانوں کے جھمکوں، گلے کے ہار اور ہاتھوں کے کنگن پر جاتی ہے۔ آپ اللہ کا نام لیں اور اسے سنار کے حوالے کر آئیں۔ زندگی نے وفا کی اور قسمت میں ہوا تو اوپر والا پھر سے کوئی وسیلہ بنادے گا۔ ویسے بھی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ گھر کا نہ ہونا ہے۔ گھر بن گیا تو کرایے سے جان چھوٹ جائے گی اور بچت بھی ہونے لگے گی۔ جب ہاتھ بس پیسے آنے لگیں گے تو کوئی مسئلہ، مسئلہ نہیں رہے گا۔
فہیم میری تمهید سر جھکائے سنتے رہے۔ وہ بالکل خاموش تھے۔ ان کے پاس میری تجویز کو رد کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ البتہ میں یہ جانتی تھی کے ان کی روح میں اس پل ٹوٹ پھوٹ کا عمل بہت تیز ہو گیا تھا۔ ان کی جھکی ہوئی پلکوں میں ہونے والی تھر تھراہٹ اس بات کا ثبوت تھی کہ ان کی آنکھیں خشک
ہیں، پر دل رورہا ہے۔ شادی کے بعد انہوں نے اپنی بہنوں کی شادیاں کیں، تو سر پر رض چڑھ گیا تھتا، لیکن انہوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری تھی اور شام کے وقت پارٹ ٹائم ملازمت تلاش کر کے جیسے تیسے اپنے سر سے قرض کا بوجھ اُتار پھینکا تھا۔ ان الات میں اگر وہ چاہتے، تو مجھ سے زیور لے کر آسانی سے اپنا فرض اُتار
تب
سکتے تھے اور میں یہ قربانی دینے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کرتی، لیکن تے بھی انہوں نے اپنے لیے مشکل راستہ چنا، جو اُن کی خود داری اور فرض شناسی کامنہ بولت
ثبوت بھتا۔
قصہ مختصر کافی بھاگ دوڑ کے بعد ہم زمین کا وہ ٹکڑا خریدنے میں کامیاب ہو گئے ، جس پر ہمارے خوابوں کو مجسم حالت میں ظہور پذیر ہو ناھت۔ تمام تر جمع پونچھی اور زیور فروخت کرنے کے باوجود ہمارے پاس رفتم پوری نہیں ہوئی تھی۔ چناں چہ فہیم نے اپنے دوست کی منت سماجت کر کے اُسے مسائل کر لیا بهت که باقی رقم دو سال کے اندر اقساط میں ادا کر دی جائے گی۔
جس روز یہ معاملات طے پائے، اس روز ہمارے گھر میں عید کا سماں تھا۔ سب کے چہروں سے خوشی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ کتنے لوگوں کے لیے
یہ چند مرلے کا پلاٹ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہو گا۔ انہیں اس کرب کا احساس ہی نہیں ہو گا کہ اپنا گھر نہ ہونے پر انسان کو کن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں، جنہیں وراثت میں بڑی جائیداد ملی اور وہ عمر بھر بنا ہاتھ پائوں بلائے اس کا کرایہ کھاتے رہے۔ پھر خیال آیا کہ ابو صحیح کہا کرتے تھے۔ اس میں بھی رب کائنات کی مصلحت ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے دے کر آزماتا ہے اور جسے چاہتا ہے واپس لے کر … وقت ایک مرتبہ پھر پر لگا کر اڑنے لگا۔ پلاٹ کی اقساط ختم ہوئیں تو ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کی۔ فہیم پر عزم تھے کہ چند برسوں میں ہم ضرور اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنا گھر تعمیر کر سکیں۔ اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے وہ اب بھی میسج شام دو جگہ ملازمت کر رہے تھے۔ ان کی صحت اب تیزی سے گرنے لگی تھی۔ میں جب بھی انہیں اپنا چیک اپ کروانے کا مشورہ دیتی تو جواب یہی ملتا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ کام کی زیادتی ہے، اس وجہ سے تھوڑی تھکاوٹ ہو جاتی جب ہمارا گھر بن گیا تو میں پھر سے ہشاش بشاش ہو جائوں گا۔“ بچے اب بڑے ہو چکے تھے ، چناں چہ میں نے فہیم کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ مجھے بھی ملازمت کی اجازت دے دیں۔ وہ اس کے لیے دل سے راضی نہیں تھے لیکن جب میں نے سمجھایا کہ اس طرح ہم جلدی رقم جمع کر کے گھر کی تعمیر کا آغاز کر سکتے ہیں تو وہ نیم رضامند ہو گئے اور یوں میں نے بھی ایک فرم میں ملازمت کا شروع کر دی۔ اب ہم دونوں دل و جان سے محنت کرنے لگے۔ اپنے گھر کا حصول ہماری زندگی کی پہلی تر جیح بن گئی تھی۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک چل رہاھت، لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور بھتا۔
ایک روز چھٹی کے بعد میں ابھی گھر واپس پہنچی ہی تھی کہ دروازے پر زور دار دستک سنائی دی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے دولڑ کے کھڑے تھے۔
فهیم صاحب کی اہلیہ ہیں ؟“
جی ہاں … فرمائیں؟“ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا، تو اُن میں سے ایک میرے قریب چلا آیا اور مؤدبانہ لہجے میں کہا۔ ”بھابی ! ہم فہیم بھائی کے دفتر میں کام کرتے ہیں۔ کچھ دیر قبل وہ دفتر میں بے ہوش ہو گئے تھے۔ ہمارے ساتھی انہیں اسپتال لے گئے ہیں۔“
کیا ہوا نہیم کو مجھے اپنا دل ڈوبت محسوس ہوا۔ ” وہ ٹھیک تو ہیں ؟“ م نہیں انہیں ہوش بالکل نہیں بھت اور چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔ پلیز، سپتال پہنچ جائیں۔ ہمارے سیکشن انچارج نصیر صاحب بھی اُن کے پاس ۔ دیر مت کیجئے گا۔ “

جی بہتر انے بمشکل خود کو سنبھالا اور اپنے بیٹے قاسم کے ہمراہ گھر سے نکل اسپتال زیادہ دور نہیں تھا۔ ہم ٹیکسی میں وہاں پہنچے تو گیٹ پر فہیم کے دوست اور
پڑی۔
سیکشن انچارج نصیر بھائی سے ملاقات ہو گئی۔ وہ ہمیں تسلیاں دیتے ہوئے ایمر جنسی میں لے گئے ، جہاں فہیم ایک بستر پر بے سدھ پڑے تھے۔ اُن کی حالت اچھی نہیں تھی۔ ڈاکٹر نے اسی روز چند مہنگے ٹیسٹ تجویز کر دیئے اور خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں برین ٹیومر ہو سکتا ہے۔ یہ سن کر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ میں اُٹھ کر واش روم میں جا کھسی۔ زندگی مجھ سے ایک نئے امتحان کا تقاضا کر رہی تھی۔ وقت ایک بار پھر مجھ سے قربانی کا متقاضی تھی۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی یہ شاید اس لیے کہ میں آج ہی رولین پاہتی تھی۔ یہ بات مجھے قطع گوارہ نہیں تھی کہ میری آنکھوں کی نمی فہیم کو مزید کمزور بنا دے۔ جب ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو ڈاکٹر کا اندیشہ درسہ ت ہوا۔ اُن کا مرض کافی بڑھ چکاھت۔ چند روز اسپتال میں گزارنے کے بعد میں فہیم کو گھر واپس لے آئی۔ زندگی پہلے سے بھی مشکل ہو گئی تھی۔ اب مجھے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ فہیم کی دیکھ بھال بھی کرنی تھی۔ اُن کی صحت روز بروز گرتی چلی جارہی تھی۔ پرائیویٹ نوکری تو ہوائی روزی ہوا کرتی ہے۔ وہاں مقتدر انسانوں کی نہیں کام کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ماہ بعد
انہیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ فہیم جو اپنی بیماری سے لا علم تھے ، اس صدمے نے انہیں مزید نڈھال کر دیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس حالت میں سڑکوں پر نوکری کے لیے مارے مارے پھریں۔ اب میں انہیں کسی نا کسی بہانے باہر جانے سے روکنے لگی، لیکن وہ بہت
خود دار تھے۔ انہیں یہ قطعاً اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ خود کو بوجھ سمجھنے لگے تھے۔
ایک صبح ناشتہ تیار کرنے کے بعد میں فہیم کو جگانے کمرے میں گئی، تو وہ بے ہوش پڑے تھے۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر میرے ہاتھ پائوں پھول لگے۔ میں نے فون کر کے فوراً ایمبولنس منگوالی۔ فہیم کو دوبارہ اسپتال لے جایا گیا اور ان کے بہت سے ٹیسٹ ہوئے۔ مرض پوری طرح اپنے پنجے گاڑھ چکاھت۔ اب تو آپریشن بھی ممکن نہیں رہا تھت۔ ڈاکٹر ز کا کہنا تھا کہ اب اُن کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، مرض لاعلاج ہو چکا ہے، البتہ ادویات کے استعمال سے ان کی تکلیف میں کچھ کمی لائی باسکتی تھی۔
کینسر اُن موذی امراض میں سے ایک ہے جو اگر کسی کا گھر تاک لے ، تو کچن کے برتن تک بک جاتے ہیں۔ یہ صرف مریض کے لیے اذیت ناک نہیں ہوتا، بلکہ اس کے پیاروں کو بھی زندہ درگور کر دیتا ہے۔ جب وہ اپنی عزیز ترین ہستی کو یوں قطرہ
قطرہ مرتا دیکھتے ہیں، تو خود بھی نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر نے علاج کے سلسلے میں عین تفصیلات سے آگاہ کیا بھت اس کے لیے حاصی رقم کی ضرورت تھی۔ فہیم میری زندگی کا واحد اثاثہ تھے۔ ان کے بغیر جینا، میرے لیے موت سے بھی بد ترکھتا، لہذا بہت سوچ بچار کے بعد میں نے اپنا پلاٹ فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ فہیم نے پلاٹ کی رجسٹری جانے کیا سوچ کر میرے نام کروائی تھی۔ میں نے ان کے علم میں لائے بغیر ایک پراپرٹی ڈیلر سے
رابطہ کیا اور پھر اسی کے توسط سے ایک ہفتے کے اندر پلاٹ فروخت کر دیا۔ اس بات کا اندازہ مجھے بخوبی ہو چکا ھت کہ پراپرٹی ڈیلر اور خریدار نے میری مجبوری سے بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے بہت کم قیمت لگائی ہے ، مگر مرقی کیا نہ کرتی . وقت بہت کم بھت اور مجھے رقم کی اشد ضرورت تھی۔ ادویات پر اُٹھنے والے اخیر اجات نے گھر کا نظام درہم برہم کر دیا تھا۔ فہیم کی حالت بگڑتی چلی جارہی تھی۔ رفتم ہاتھ میں آتے ہی میں انہیں ایک اچھے اسپتال میں لے گئی۔ وہ اکثر مجھ سے علاج پر اُٹھنے والے اخراجات کی بابت استفسار کرتے رہتے تھے ، مگر میں ادھر اُدھر کی باتیں کر کے بات ٹال دیا کرتی تھی۔
ایک شام میں ان کے قریب بیٹھی تھی، تو انہوں نے لمحہ بھر کے لیے میرے آنکھوں میں جھانکنے کے بعد میرا ہاتھ تھام لیا اور پر سکون لہجے میں تم بہت عظیم ہو عالی… اپنے دکھ کو فراموش کر کے میرے درد کی کم کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہو۔ حالانکہ تم بھی یہ جانتی ہو کہ موت
ھیرے دھیرے میری روح پرت بعض ہوتی چلی جارہی ہے۔
یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ! ہم تو یک جان، دوتالب ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ بیماری تو جسم کا صدقہ ہوا کرتی ہے۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ بہت جلد آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔“ ان کی بات سن کر میرا دل تیزی سے
دھڑ کا ھتا۔
بہلا ئومت عالیہ میں بچہ نہیں ہوں۔ یہ بات میں عرصے سے جانتا ہوں کہ مجھے برین ٹیوم رہے۔ ان کی زبان سے یہ انکشاف سن کر لمحہ بھر کے لیے میں سناٹے میں آگئی تھی۔ اگر آپ جانتے تھے تو مجھ سے چھپایا کیوں ؟“
(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button