ایران سپر پاور ممالک کے لئے درد سر کیوں بنا ہوا ہے؟

شاید ہی کوئی دنیا کی ایسی کوئی سپر پاور ہو جس سے ایران کا ٹکراؤ نہ ہوا ہو
ہر ایک سپر پاور نے ایران کو فتح کرنے کی کوشش کی اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ایران دنیا کے کراس روڈ پر واقع ہے، یہ واحد ملک ہے جو یورپ، ایشیا اور افریقہ تینوں براعظموں کو آپس میں ملاتا ہے۔ ایران سات ممالک کے ساتھ بارڈر شیئر کرتا ہے۔ ایسٹرن پاکستان ،افغانستان،اور ترکمانستان کے ساتھ ویسٹرن، عراق، ترکی ارمینیا اور آزربائیجان اس کے علاوہ تین سمندروں کی بھی رسائی ہے۔ ایران کے جنوب میں دنیا کا ایک اہم اور خطر ناک پوائنٹ بھی ہے جس کو سٹریٹ آف ہارموس کہا جاتا ہے۔ اس پر پہلے یو اے ای کا قبضہ تھا لیکن1970 سے اس پر ایران کا قبضہ ہے۔
پچھلے چالیس سالوں سے ایران مغربی دنیا کے لئے ایک سر درد بنا ہوا ہے لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی پاور اکانومی اور پاور فل آرمی ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی بھی مغربی ملک ایران پر حملہ کر کے اس پر قبضہ نہیں کر سکا۔ سب جانتے ہیں کہ ایران پر ڈائریکٹ حملہ کرنا بہت زیادہ بیک فائر کر سکتا ہے۔ ایران کی جغرافیائی حدود کی وجہ سے بھی اس کو فتح نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کے جنوب اور مغرب میں کافی بڑا پہاڑی سلسلہ ہے جن کو پار کرنا کافی مشکل ہے۔ 1980 جب عراق نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا منصوبہ یہ تھا کہ ایک تووہ ایران کے صوبے خزستان میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرے گا اور پھر یہاں سے آگے ایران کے دوسرے شہروں پر قبضہ کرے گا۔ سب عرب ممالک خوفزدہ تھے کہ ایرانی انقلاب کے اثرات دوسرے عرب ممالک تک نہ پہنچ جائیں۔
دو سالوں میں عراقی فوجی صرف یہیں خزستان تک ہی پہنچ سکی انہوں نے بہت کوشش کی کہ پہاڑوں کو کراس کر کے باقی شہروں تک پہنچے مگر ایسا نہ کر سکی اور کامیابی نہ ملی، اس کے بعد ایران عراقی فوجیوں کے پیچھے دھکیلتا ہوا اس کے اندر تک گھس گیا، لیکن وہاں عراقی فوجیوں کو آسانی سے سپلائی مل رہی تھی لیکن ایرانی فوجیوں کو مشکلات درپیش تھیں یہی وجہ تھی کہ 8 سال بعد یہ جنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی اور دونوں ممالک کی سرحدوں میں ایک انچ بھی تبدیلی نہیں آئی، ایران کے پاس دنیا کے سب سے بڑے زنک کے ذخائر ہیں، خلیج بنگال کے پہاڑوں میں جب آئل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تو ایران کی سرحد کو چار چاند لگا دیئے، پوری دنیا کے دس فیصد آئل اور پندرہ فیصد گیس کے ذخائر ایران کے پاس ہیں۔ایران کو دوری چیز جو محفوظ بناتی ہے وہ ہے پچیس سو کلو میٹر کی لمبی کوسٹ لائن جو دو سمندروں کے درمیان تقسیم ہے۔
بندر عباس جو ایران کی سب سے بڑی بندر گاہ جو دنیا کے بڑے پوائنٹ سٹیٹ آف ہارموز سے صرف ستر کلو میٹر دور ہے۔ اگر ایران اپنی نیوی کے ذریعے یہ پوائنٹ بند کر دے تو پوری دنیا کی اکانومی کولیپ کر جائے گی کیونکہ دنیا کی پندرہ فیصد انرجی سپلائی یہاں سے گزر کر ایشیا اور یورپ کو جاتی ہے۔اگر کوئی فوج یہ دو پہاڑی سلسلے اور کوسٹ لائن پار کر کے ایران کے اندر آ بھی جائے تو یہاں پر سب سے بڑا بیریئر یہ دشت لوط اور کور ریگستان ہے۔ ان ڈیزرٹ کو زمین کا گرم ترین علاقہ کہا جاتا ہے۔2005 میں یہاں پر ستر ڈگری سنٹی گریڈ تک درجہ حرارت پہنچ گیا تھا۔ اس مشکل جغرافیائی حدود کی وجہ سے ایران کو فتح کرنا مشکل رہا ہے۔
آج کے دور میں جو چیز ایران کو محفوظ بناتی ہے وہ ہے اس کی جیوپولیٹیکل سٹریٹجی۔ ایران کی آبادی 9 کروڑ ہے۔جس میں پچانوے فیصد شیعہ مسلم ہیں، باسٹھ فیصد لوگ فارسی ہیں، ایک زمانے میں امریکا ایران کو ملٹری جیٹس تک سپلائی کرتا تھا۔ لیکن پھر امام خمینی کے آنے کے بعد یہاں کے تمام ڈائنامک تبدیل ہو گئے۔
1979 سے پہلے ایران اور اسرائیل کے اچھے تعلقات تھے، 1948 میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ایران دوسرا بڑا مسلم ملک تھا۔ لیکن امام خمینی نے آتے ہی فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی اور اعلان کیا کہ اسرائیل ایران کا پہلا دشمن ملک ہے اور اسرائیل کے ساتھ تمام روابط ختم کر دیئے۔ اس وجہ سے ایران کے امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے اور عرب ممالک بھی الرٹ ہو گئے۔ سب خوفزدہ تھے کہ کہیں ایران کی آئیڈیالوجی ان ممالک میں نہ پہنچ جائے کیونکہ اس وجہ سے ان کے ممالک کو اچھا خاصہ نقصان پہنچ سکتا تھا۔
عرب ممالک میں بادشاہت تھی۔ ان سب عرب ممالک نے صدام حسین کو ایران پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا۔ ایران کو بھی سمجھ آ گیا کہ اگر اس نے سروائیو کرنا ہے تو اپنی آئیڈیالوجی کو دوسرے ممالک تک پہنچانا ہو گا۔ یہ سب ممالک ان کے دشمن اسرائیل کے بیچ میں ہیں،اسرائیل سے دور ہونے کے باوجود وہ اس کو تھریڈ کر سکے۔
ایران نے ایسے تمام ممالک کی حمایت کرنا شروع کر دی جو اسرائیل کے خلاف تھے۔ اسی حمایت کی وجہ سے ایران عرب ممالک کے ساتھ ساتھ اسرائیل پر بھی پریشر رکھتا ہے۔ جب اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی تو لبنان سے حزب اللہ نے میزائل فائر کئے اور یمنی حوثیوں نے ریڈ سمندر سے گزرنے والی اسرائیلی اور امریکی شپس کو ڈرون سے ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا، ایران کی اسی پروکسی وار سٹریٹجی نے اسے کافی خطرناک بنا دیا ہے۔
2024 میں جب حوثی ڈرون حملے کر رہے تھے تب فرانس نے یمن کے شاہی مزار کو گرانے کے لئے میزائل حملے کئے۔ ایرانی ڈرون کی بہت کم قیمت ہے اور میزائل بہت مہنگے، روس بھی یہی ایران کے بنائے ہوئے ڈرونز استعمال کر رہا ہے۔ ایران کے پاس پورے مڈل ایسٹ خطے میں سے سب سے زیادہ اور جدید بیلاسٹک میزائل ہیں۔ یہ میزائل دو ہزار کلو میٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اب تو چائنہ اور روس بھی ایران کی حمایت کر رہے ہیں۔




